اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ درباری قلمکاروں اور تاریخ نویسوں نے تاریخ کا رخ اس طرح سے موڑ لیا ہے کہ عاشورا کے بارے میں ہماری تحقیق کی حدیں دمشق سے آگے نہیں جاتیں اور دربار یزید میں رک جاتی ہیں حالانکہ یزید اصل کردار نہیں تھا وہ تو صرف ایک گماشتہ تھا اپنے یہودی آقاؤں کا، اصل کردار تو وہ ہیں جو عالمی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے تھے نہ ایک ایسا شخص جس کو اپنے بندر “ابو القیس” سے کھیلنے اور شراب و کباب کی محفلیں جمانے سے ہی فرصت نہيں تھی۔
۔۔۔۔۔
* تین نظریات
تاریخ اسلام میں یہودی کردار کا جائزہ لینے کے حوالے سے تین نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ یہودیوں نے تاریخ میں کوئی دخل و تصرف نہیں کیا اور قرآن اور حدیث کے منابع پر بھی ان کی کوئی نظر نہیں ہے۔
۲۔ قرآن اور احادیث کی رو سے، ثابت ہے کہ یہود کا کچھ کردار تو ضرور تھا لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ یہود ہی اسلام کا اصل دشمن ہے (ان لوگوں نے بظاہر سورہ مائدہ کی آیت ۸۱ اور یہودیت کی دشمنی پر مبنی دوسری آیات کی تلاوت تک بھی نہیں کی ہے)۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہود ایک جماعت کا نام ہے جو رسول اللہ(ص) کے مد مقابل آ کھڑی ہوئی تھی۔ اور عجب یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم محققین ـ اموی قلمکاروں کی مکتوبہ تاریخ سے متاثر ہوکر ـ اسی خیال کے حامی ہیں۔
۳۔ مدلل منابع اور دلائل محکمہ کی روشنی میں یہود ہی فتنوں کی بنیاد ہیں۔ جان لینا چاہیے کہ غدیر خم سے لے کر غصب خلافت تک کا زمانی فاصلہ ۷۰ سے ۷۲ دن تک کا ہے اور جو واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد رونما ہوئے ہیں بہت عجیب ہیں اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ صرف دو آدمیوں نے اتنے مختصر عرصے میں پورے معاشرے کی فکری سمت کو اتنی آسانی سے بدل ڈالا ہے۔
سنہ ۲۰۱۰ع میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جب فتنہ انگیزی کا آغاز ہوا تو برطانیہ اور امریکہ کے جاسوسی اداروں ـ جو یہودی قواعد کے مطابق معرض وجود میں آئے ہیں اور یہودی تعلیمات کے مطابق کام کرتے ہیں ـ نے اقرار کیا کہ وہ عرصہ ۲۰ برس سے اس فتنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے رہے تھے؛ تو پیغمبر اکرم(ص) کا بنایا ہوا معاشرہ صرف ۷۲ دنوں میں ۱۸۰ درجہ کیونکر پلٹا اور بدلا جاسکتا ہے؟! جب ہم اس واقعے کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان واقعات کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی جا چکی تھی۔
* غصب خلافت کے واقعے کی جڑ اور آپ(ص) کے مدینہ سے نکل جانے کے درمیان ربط
غصب خلافت سے ۱۰ سال قبل کے ایام سے رجوع کریں تو بعض مسائل کی جڑیں عیاں ہوجاتی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: “إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا۔۔۔”۔ (۱)
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ: رسول اللہ(ص) کو اللہ کی بھیجی ہوئی وحی سے خبر ملتی ہے کہ دشمن نے دہشت گردانہ کاروائی کا انتظام کیا ہے، مکہ سے ایک شخص آپ کے ساتھ ہوجاتا ہے اور غار ثور میں چلے جاتے ہیں اور تین روز بعد وہاں سے نکلتے ہیں، اس آیت میں ـ جو شیعیان اہل بیت(ع) کے نزدیک آیت اخراج کے نام سے مشہور ہے ـ لفظ “أَخْرَجَهُ” (اس کو نکال دیا) سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ایک فرد کو کفار نے مکہ سے نکال باہر کیا ہے اور وہ جو پیغمبر کے ساتھ تھا، اس اخراج میں شامل نہیں ہے، حالانکہ اگر دو افراد کے نکالے جانے کی بات ہوتی تو لفظ “أَخْرَجَهُما” سے استفادہ کیا جاتا۔
* رسول اللہ(ص) منتظر رہے اور امام علی(ع) کے بغیر مدینہ میں داخل نہیں ہوئے
اگر جزیرہ نمائے عرب کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ مکہ جزیرہ نمائے عرب کے وسط میں مغرب کی جانب اور مدینہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں مغرب کی طرف واقع ہے۔ حالانکہ غار ثور مکہ کے جنوب میں واقع ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے مدینہ کے عوام کو تین دن تک انتظار کیوں کرایا؛ حالانکہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ “جو اپنے عہد و پیمان پر عمل نہ کرے، اس کا کوئی دین نہیں ہے”، (۲) چنانچہ اب اس واقعے کا تحقیقی جائزہ لینا چاہئے۔
“پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ تین دن تک مدینہ کے باہر امیرالمؤمنین علیہ السلام کے منتظر رہتے ہیں، تاکہ جن لوگوں نے آپ کا ابھی تک آپ کا دیدار نہیں کیا ہے وہ آپ کو امیرالمؤمنین کے ساتھ اور امیرالمؤمنین کو آپ کے ساتھ دیکھ لیں؛ یعنی یہ کہ رسول اللہ(ص) اپنے ہمراہ کے ساتھ مدینہ میں داخل نہیں ہونا چاہتے تھے۔
* منعِ حدیث اور منعِ روایتِ حدیث کے واقعے میں سرکاری مبلغین
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالی نے تو صرف رسول اللہ(ص) کو خبر دی تھی کہ ایک سازش ہورہی ہے چنانچہ آپ کو مکہ سے نکل جانا چاہئے؛ لیکن بعد کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی ایک خاص ہدف کا تعین کرکے اس واقعے میں داخل ہوچکے تھے. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے وصال کے بعد ایک اہم واقعہ یہ رونما ہوا “حدیث” کو ممنوع قرار دیا گیا اور جو حدیثیں جن لوگوں کے پاس بھی تھیں انہیں جلانے کا حکم دیا گیا اور ہزاروں حدیثیں جلا دی گئیں؛ لیکن اس کے بعد پھر ان لوگوں کو حدیث نقل کرنے کی اجازت دی گئی جو کسی طرح حکومت وقت کے ساتھ رابطے میں تھے اور یہ بات اور بھی زيادہ اہم ہے کہ جن لوگوں کو نقل حدیث کی اجازت دی گئی وہ رسول اللہ(ص) کی حیات کے آخری دنوں میں مسلمان ہوئے تھے یا پھر وہ لوگ جنہوں نے آپ کے وصال کے بعد حکومت وقت کے زمانے میں اسلام کا اظہار کیا تھا۔
منع حدیث کے زمانے میں سرکاری مبلغین کا کردار نمایاں تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ یہودی کاہنوں کے شاگرد جناب “ابو ہریرہ” نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے ۶۰۰۰ حدیثیں نقل کی ہیں حالانکہ انھوں نے فتح خیبر کے بعد اسلام قبول کیا ہے اور ایک سال سے زیادہ آپ کے قریب نہیں رہے ہیں، جبکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام جو رسول اللہ(ص) کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں اور بعثت کے دن سے یوم شہادت تک آپ کے ساتھ تھے، نے صرف ۵۰۰ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا یزیدی لشکر کو بھی یاددہانی کرائی کہ یہ جو تم کررہے ہو اس کے پیچھے مسلمانوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ آپ نے لشکر یزید کے سامنے آ کر اپنا آخری خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: “وحششتم علینا نار الفتن التی خبأها عدوّکم وعدوّنا؛ فرمایا: اور اب تم ایسی آگ کو ہوا دے رہے ہو جو میرے اور تمہارے مشترکہ دشمن نے بھڑکائی ہے”۔ (۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ اگر تم ان کی مدد نہ کرو گے تو (کیا ہوا ؟) اللہ نے ان کی مدد کی ہے اس وقت جب کافروں نے ان کو نکال دیا تھا، جب وہ دو میں کے ایک تھے جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اپنی طرف کا سکون و اطمینان ان پر اتارا اور ان کوتقویت پہنچائی ایسی فوجوں سے جنہیں تم لوگوں نے نہیں دیکھا۔ (سورہ توبہ، آیت ۴۰)
۲۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ: “لَا دِينَ لِمَن لَا عَهدَ لَهُ” بحار الانوار، ج۷۲، ص۹۶؛ مسند احمد بن حنبل، ج۳، ص۱۳۵۔
۳۔ کعب الاحبار یہودی، وہب بن منبہ یہودی سے حدیث نقل کرتے تھے اور یہودی مدرسے میں یہودی کاہنوں کے شاگرد تھے اور جو کچھ ان سے سیکھتے تھے حدیث رسول اللہ(ص) کے طور پر بیان کرتے تھے۔ (شیخ محمود ابو ریہ، شیخ المضيرہ ابو ہریرہ، ص۲۴)
۴۔ ابن شُعبه حَرّانی، تحف العقول ص ۲۴۰؛ سید ابن طاؤس، الملهوف على قتلى الطفوف، ص۸۵-۸۸؛ بحار الانوار، ج۴۵، ص۷-۱۰؛ صحیفة الإمام الحسین علیه السلام، ص۲۹۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطاب: حجتالاسلام محمدعلی منصوری دامغانی / تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
منبع: خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲